جامعہ عربیہ اعزاز العلوم ویٹ کا قیام
۱۸۵۷ھ کے روح فرساخونی ڈرامے کے بعد سلطنت مغلیہ کا آخری چراغ گل ہو گیا اور ہندوستانی عوام آزادی وطن کی جدوجہد میں ناکام گو گئے، ادھر اسلام دشمن عناصر نے منظم ہو کر یہاں کے باشندوں خصوصاً مسلمانوں کو ان کی مذہبی اور قومی روایات سے گمراہ کرنے کی ناپاک کوششیں شروع کر دیں، یہاں تک کہ اسلام اور مسلمانوں کا مستقبل خطرہ میں پڑ گیا اور ملت اسلامیہ ہند پر چہار جانب سے شدید حملے ہونے لگے۔
تو ان ناگفتہ بہ حالات میں اس زبر دست فتنہ کا مقابلہ کرنے کے لئے اکابرین امت۔
◄ خصوصاً حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی قدس سرہ
◄ قطبِ عالم حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی قدس سرہ
اور ان کے رفقاء کار نے سرزمین دیوبند میں ایک عالمگیر تحریک کی داغ بیل ڈالی جو دارالعلوم دیوبند اور دیگر مدارسِ اسلامیہ کی شکل میں نمودار ہوئی۔
جامعہ عربیہ اعزاز العلوم ویٹ بھی اسی سلسلہ کی ایک اہم اور مضبوط کڑی ہے، حضرت مولانا عبد المالک صاحب نقشبندیؒ کے خلیفہ خاص حضرت مولانا غلام احمد صاحب عرف (چپ شاہؒ) کی بصیرت ایمانی نے مغربی یوپی کی مردم خیز سرزمین ویٹ کو مدرسہ کے لئے منتخب فرمایا چنانچہ ۱۳۵۳ھ مطابق ۱۹۳۴ء میں اللہ کے بھروسہ پر بے سروسامانی کے عالم میں کفر و الحاد کے تابڑ توڑ حملوں کو روکنے کے لیے اس مدرسہ کی بنیاد ڈالی، جس کا ابتدائی نام "مدرسہ محمدی" تجویز کیا گیا۔
چونکہ روز اول ہی سے جامعہ کا رابطہ دارالعلوم دیوبند سے رہا ہے اور اکابرین دیوبند کی تشریف آوری کا سلسلہ بھی اسی وقت سے جاری ہے، چنانچہ ارباب مدارس نے مدرسہ کا نام تبدیل کرکے شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی صاحب قدس سرہ کے نام پر مدرسہ عربیہ اعزاز العلوم رکھ دیا اور چونکہ ادارہ اپنے محدود و سائل کے باوجود روانی کے ساتھ تعلیم و تعمیری ہر اعتبار سے ترقی کے منازل طے کر رہا ہے جس کا فیض آج ملک ہی نہیں بلکہ بیرون ملک بھی جاری ہے اس لیے آج ادارہ کو جامعہ عربیہ اعزاز العلوم کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔